Thursday, May 20, 2010

پابندی: فیس بک کے بعد یوٹیوب

پابندی: فیس بک کے بعد یوٹیوب

یوٹیوب کا کہنا ہے کہ وہ سروس کی جلد از جلد بحالی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک کے بعد حکومت پاکستان نے ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یو ٹیوب کو بھی پاکستان میں بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ویب سائٹس پر پابندی کے بعد پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال میں گزشتہ دو روز کے دوران بیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق گزشتہ روز ’فیس بُک‘ کے ان حصوں کو بند کردیا گیا تھا جن پر پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے جمعرات کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق تمام متعلقہ آپریڑز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوٹیوب پر بڑھتے ہوئے قابل اعتراض مواد کی اشاعت کے پیش نظر اس ویب سائٹ کو بند کریں۔

کلِک کلِک فیس بک پر پابندی کا حکم

کلِک فیس بک پر پابندی، عوام کی رائے: ویڈیو

کلِک فیس بک کے خلاف احتجاجی مظاہرے: تصاویر

بیان میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے نے اس مواد (فیس بک پر پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کا مقابلہ) کے خلاف یوٹیوب اور فیس بک پر دستیاب باقاعدہ چینلز سمیت احتجاج کا ہر ممکن طریقہ اپنایا کہ وہ قابل اعتراض مواد کی اشاعت سے گریز کریں۔

لیکن بیان کے مطابق وقت کے ساتھ اس مواد کی اشاعت میں اضافہ ہوتا گیا لہذا اس صورت حال کے پیش نظر پی ٹی اے نے ان ویب سائٹس کو پاکستان میں مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں دو سال قبل سنہ دو ہزار آٹھ میں یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کی وجہ سے جزوی پابندی عائد کی گئی تھی۔

پی ٹی اے کے مطابق انہوں نے قابل اعتراض مواد کے باعث اب تک ساڑھے چار سو لنکس بند کر دیے ہیں۔

وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور سروس کی جلد از جلد بحالی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں

یوٹیوب

بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ قدم پاکستان کے آئین، لوگوں کی خواہشات اور ہائی کورٹ اور حکومت کے احکامات کے تحت اٹھایا گیا ہے۔

پی ٹی اے نے الزام عائد کیا ہے کہ فیس بک اور یوٹیوب کی انتظامیہ کا رویہ ڈبلیو ایس آئی ایس کی قراداد اور ان کی ان پالسیوں کے برعکس ہے جو انہوں نے عوام کے لیے اپنی ویب سائٹس پر مشتہر کی ہیں۔

پی ٹی اے نے مزید کہا ہے کہ اس معاملے کا فوری حل نکالنے کے لیے فیس بک اور یو ٹیوب کے متعلقہ اہلکاروں کی طرف سے پی ٹی اے کے ساتھ رابطے کا خیر مقدم کریں گے تا کہ مذہبی ہم آہنگی اور احترام کو یقینی بنایا جا سکے۔

یوٹیوب کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور سروس کی جلد از جلد بحالی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں‘۔

فیس بک پر پیغمبر اسلام کے بارے میں خاکے بنانے کا ایک مقابلہ ہورہا ہے اس لیے اس ویب سائٹ پر پابندی لگائی جائے: درخواست گزار

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یا پی ٹی اے کے چیرمین ڈاکڑ محمد یاسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یو ٹیوب کی ویب سائٹ کو بھی اسی وجہ سے بند کیا گیا ہے کہ اس پر بھی ویسا ہی ’قابل اعتراض مواد‘ موجود ہے جیسا سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر موجود تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ویب سائٹ پر اعتراض نہیں بلکہ مواد پر اعتراض ہے اور یہ کہ پوری ویب سائٹ اس لیے بند کرنا پڑی کیوں کہ ایک گھنٹے میں چالیس سے ساٹھ تک یو آر ایلز آرہی تھیں جنکو بلاک کرنا مشکل ہوگیا تھا‘۔انہوں نے کہا کہ یو آر ایلز کو روکنے کے طریقہ کار طویل، مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ڈاکڑ یاسین نے کہا کہ انہوں نے یہ کاروائی وزرات اطلاعات و ٹینکنالوجی کی ہدایت پر کی گئی ہے اور لوگ بھی شکایت کررہے ہیں۔

تا ہم ان کا کہنا ہے چار سے پانچ آپریڑز کل رات سے کام کررہے ہیں اور وہ مسسل شکایت وصول کررہے ہیں اور یہ کہ ہماری ای میل ایڈریس پر اور ویب سائٹ پر بھی لوگ شکایت کررہے ہیں۔ پی ٹی اے کے چیرمین ڈاکڑ یاسین نے کہا کہ اگر کسی اور ویب سائٹ سے قابل اعتراض مواد آیا تو اس ویب سائٹ کو بھی بلاک کیا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ’فیس بک‘ تک رسائی پر پابندی لگانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس اعجاز احمد چودھری نے یہ حکم ’اسلامک لائیرز موومنٹ‘ کی اس درخواست پر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فیس بک پر پیغمبر اسلام کے بارے میں خاکے بنانے کا ایک مقابلہ ہو رہا ہے اس لیے اس ویب سائٹ پر پابندی لگائی جائے۔

جسٹس اعجاز نے محکمۂ مواصلات کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان میں فیس بک کے استعمال پر پابندی عائد کر دے اور آئندہ تاریخ سماعت یعنی اکتیس مئی کو فیس بک کے بارے میں تحریری جواب پیش کرے۔

اسلام آباد سے ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ فیس بک اور ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب پر پابندی کے باعث پاکستان کے انٹرنیٹ استعمال میں گزشتہ دو روز کے دوران بیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی ایک نجی کمپنی کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد اسی لاکھ کے قریب ہے۔

انٹرنیٹ کمپنیوں کی ملک گیر تنظیم کے رکن اور ’نیا ٹیل‘ کے سربراہ وہاج السراج کے مطابق فیس بک اور یو ٹیوب پر پابندی کے بعد سے ان کے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ’انٹرنیٹ ٹریفک‘ میں بیس فیصد کمی ہوئی ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کے مقبول ہونے کے بعد سے اس کے استعمال میں اتنی اچانگ گراوٹ کی مثال نہیں ملتی

وہاج السراج

نیا ٹیل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے مقبول ہونے کے بعد سے اس کے استعمال میں اتنی اچانک کمی کی مثال نہیں ملتی۔

’دو برس قبل بھی یو ٹیوب پر عارضی پابندی لگی تھی لیکن اس وقت بھی انٹرنیٹ ٹریفک میں اس قدر کمی ریکارڈ نہیں ہوئی تھی۔‘

وہاج السراج کے مطابق انٹرنیٹ کے استعمال میں اس کمی کے باعث انٹرنیٹ کمپنیوں کی آمدنی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ ان دونوں ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے والے زیادہ تر افراد براڈ بینڈ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جس کا بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے۔

وہاج نے بتایا کہ انہوں نے ان دونوں ویب سائیٹس پر پابندی ٹیلی کام صنعت کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے حکم پر عائد کی گئی ہے۔

’دو روز قبل پی ٹی اے نے حکم دیا تھا کہ فیس بک کو بلاک کر دیں اور بدھ کی رات اسی طرح کا حکم یو ٹیوب پر چلنے والی بعض ویڈیوز کے بارے میں آیا لیکن تھوڑی دیر ہی میں ایک نیا حکم آ گیا کہ یوٹیوب کی پوری ویب سائٹ ہی کو بلاک کر دیں کیونکہ اس پر ناشائستہ اور غیر قانونی مواد شائع اور نشر کیا جا رہا ہے۔‘

ای میل کے جواب میں ہمیں بے شمار صارفین کی جانب سے جوابی ای میل آئی ہے جنہوں نے اس پابندی کی حمایت کی ہے

وہاج السراج

انٹرنیٹ کمپنی نے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ اس پابندی کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں ذاتی طور پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے لیکن فیس بک پر پابندی کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے صارفین کو ای میلز کے ذریعے اس پابندی کی وجوہات سے آگاہ کیا تھا۔

’اس ای میل کے جواب میں ہمیں بے شمار صارفین کی جانب سے جوابی ای میل آئی ہے جنہوں نے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔‘

تاہم وہاج السراج نے امید ظاہر کی کہ ان دونوں ویب سائٹس کی بندش عارضی ہو گی۔

’پی ٹی اے کی انتظامیہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ فیس بک اور یو ٹیوب کی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔‘

0 comments:

Post a Comment